قائداعظم محمد علی جناح سگریٹ پی رہے تھے‘ سیکریٹری نے عرض کیا ’’سر کیا ہم رسک نہیں لے رہے‘‘ قائداعظم نے پورے یقین سے فرمایا ’’ہرگز نہیں‘ ہماری حلف برداری کی تقریب کے پہلے کارڈز کراچی کے ہندوؤں کو ہی
یہ تو ہونا ہی تھا بلکہ شاید کچھ لیٹ ہوگیافیاض چوہان کے ساتھ کوئی تعارف، تعلق ، جان پہچان نہ تھی۔ اسے کچھ ٹاک شوز میں دیکھا تھا اور کنفیوژڈ تھا کہ اس نوجوان کو کس خانے میں فٹ کروں۔
یہ ایک پرانی بحث ہے جو نئے پاکستان میں ایک نئے زاویے سے دوبارہ شروع ہو چکی ہے۔ عوام الناس کو اس بحث کی خبر نہیں کیونکہ یہ بحث اقتدار کے ایوانوں تک محدود ہے۔ پاکستان اور بھارت میں حالیہ
بھارت یا ہندوستان کی بنیاد کو ہندو نسل نے آباد کیا‘یہ محض دعوے ہیں۔ہندوستان کو اپنے راجہ راجائوں اور دیوتائوں کی وراثت مانا گیا‘ حقیقت یہ بھی نہیں۔بنیادی طور پر موجودہ برصغیر کو دریافت کرنے والے آریا لوگ تھے‘ جو
بہت سال پہلے 1999ء میں کارگل کی جنگ کا فائدہ بی جے پی کو ہوا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان پر الزام لگایا گیا کہ اُس نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی ہے۔ اُس وقت کے
آٹھ دس دن کی شب و روز کی نوحہ گری اور بڑھک بازی کے بعد کل شام کچھ ایسا لگنے لگا تھا جیسے دانائی اور معاملہ فہمی نے بالآخر دھمکیوں اور اشتعال انگیزی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور جنگ
گزشتہ سے پیوستہ روز معاملہ چار کلو میٹر سے اسی کلو میٹر کے درمیان پھنسا ہوا تھا اور چار عدد ہزار پائونڈ والے بموں سے لیکر ”پے لوڈ‘‘ کے بیچ اٹکا ہوا تھا اور ان سب سے زیادہ اہم مسئلہ
جنگی ماحول میں صورت حال لمحہ بہ لمحہ بدلتی رہتی ہے۔ کالم لکھتے ہوئے لہذا میں جسے Big Pictureکہا جاتا ہے پر ہی نظر رکھنے کو مجبور ہوں۔ بدھ کی صبح دن کی روشنی میں پاک فضائیہ نے منگل کے
لاہور میں ادبی ثقافتی سرگرمیاں بہت ہوتی ہیں مگر آج ہم نامور پنجابی شاعرہ طاہرا سرا کی دعوت پر شیخوپورہ گئے۔ وہاں شیخوپورہ آرٹس کونسل کا افتتاح تھا اورمختلف ادبی تقریبات منعقد کی گئی تھیں۔ طاہر اسرا نے ہمیں بلایا
ایک طرف جنگی جنون ہے اور دوسری طرف امجد اسلام امجد کی خوشبو دار نظمیں اور دلفریب شخصیت ہے اور میں درمیان میں بیٹھ کر کبھی اِدھر دیکھتا ہوں اور کبھی اُدھر اور مجھے سمجھ نہیں آتی اصل حقیقت کیا