ہندوستان کو انگریزوں کے تسلط و استبداد سے آزاد ہوئے ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران ہندوستانی مسلمانوں نے اتار چڑھائو کی کئی داستانیں دیکھی ہیں۔ ان گنت مصائب و آلام سے دوچار ہوئے ہیں۔ تعصب ا ور
مساوات آدمیت کے پیغمبر جناب عیسیٰ علیہ السلام کیبات بھی وہ نہیں سنتے ہیں۔ ان کی آنکھیں وہ نیلی اور جلدگوری چٹی دکھاتے ہیں۔ یہ دہشت گردی کا کوئی عام سا واقعہ نہیں۔ واقعہ ایک شہر میں ہوا مگر تاریخ
عورت مارچ کیا ہوا اِس قلعہ نُما ملک کی بنیادیں ہل گئیں۔ پلے کارڈوں پہ چند نعرے درج تھے اور محافظِ اخلاقیات وہ نہ سہہ سکے۔ اَب تک بحث چل رہی ہے کہ یہ کیا کہہ دیا، وہ کیا لکھ
نواز شریف ابھی زندہ ہیں! مظلومیت اور عزیمت… کسی موڑ پر اگر ہم قدم ہو جائیں تو تاریخ کی گواہی یہ ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت ان کا سامنا نہیں کر سکتی۔ امامِ عزیمت احمد ابن حنبل جیل سے
کامرانی دانش اور لچک سے ہوتی ہے۔ تن کر چٹانیں کھڑی ہوتی ہیں‘ آدمی نہیں۔ آدمی کو کامرانی کے لیے آدمی بننا پڑتا ہے۔ زندگی اے زندگی‘ روشنی اے روشنی‘ آدمی اے آدمی! اب بالآخر خان کو احساس ہوا کہ
افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلاء کا وقت قریب ہے۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سینئررہنماملا عبدالغنی برادر کے امریکی حکام سے مذاکرات جاری ہیں۔ان طویل مدتی مذاکرات کا پانچواں دور اختتام پذیر ہو چکا ہے ۔
یہ باہر کی یونیورسٹیوںکا پرابلم ہو گا کہ اُن کا تعلیمی معیار کیا ہے اور اُن میں پڑھنے والوں نے اپنے مخصوص شعبوں میں کون سا مقام حاصل کیا ہے۔ یہ دردِ سر ہارورڈ (Harvard)، ییل (Yale)، پرنسٹن (Princeton)، کیمبرج
سمجھ میں نہیں آتا کہ خوف کس بات کا ہے؟ اگر علاقائی زبانیں اتنی ترقی یافتہ ہیں کہ وہ اپنا ادب اور میڈیا پیدا کر رہی ہیں تو پھر انھیں قومی زبان کا درجہ کیوں نہیں ملنا چاہیے۔جب بھی اس
ہوشیار لوگ اپنے دوست اور بے وقوف اپنے دشمن بڑھانے کے ماہر ہوتے ہیں۔ جنگ اور کشیدگی کے دنوں میں تو خصوصی طور پر عقلمند لوگ کوشش کرتے ہیں کہ اصل دشمن سے نمٹنے کیلئے دور کے دشمنوں کو کم
خیالات کی وادیوں میں بھٹکتے اور پھول چنتے شاعر ازل سے دل بہلانے میں لگے رہتے ہیں۔ ابد تک بہلاتے رہیں گے۔ زندگی کی بساط پہ یہی ان کا کردار ہے… مگر حکمران؟ حکمران ذرا سی بے توجہی کے متحمل